آپ کی فقہی تحقیقات‘کتاب وسنت کے عین مطابق۔مولانا مفتی حافظ سیدضیاء الدین نقشبندی کا لکچر
امام اعظم ابو حنیفہ حضرت نعمان بن ثابتؓ تاریخ اسلام کی وہ عظیم المرتبت
شخصیت ہے جس کو اللہ تعالی نے فقہ واجتہاد میں درجۂ کمال عطا فرمایا،آپ نہ
صرف فقہ واجتہادکے امام بلکہ محدثین کے امام اورمحققین کے سرخیل ہیں۔اللہ
تعالی نے آپ کو ایسا صاحب بصارت وبصیرت بنایا کہ جہاں ائمۂ وقت کی فکری
جولانی کی انتہاء ہوتی ہے وہیں سے آپ کی فکر باکمال وفہم رسا کا نقطۂ آغاز
ہوتاہے۔آپ کو استنباط واستخراج کاامتیازی ملکہ حاصل تھا ،علوم اسلامیہ کے
ماہرین ،اکابر امت اور اجلہ علماء ومحدثین نے آپ کے کمال علم ووفور فہم کی
گواہی دی اورآپ کی فقہی تحقیقات کو کتاب وسنت کے عین موافق قراردیا ہے۔شیخ
ابن حزم ظاہری نے بھی امام اعظم کے طریقۂ استدلال کے سلسلہ میں واضح طورپر
بیان کیا کہ آپ کبھی کوئی فیصلہ کتاب وسنت کے خلاف نہیں کیا کرتے اور نہ
اقوال صحابہ کے سوا کوئی رائے رکھتے تھے ،انہوں نے امام اعظم کے اس قول کا
حوالہ دیا ہے کہ آپ نے فرمایا :اللہ تعالی نے جو نازل فرمایاہے وہ
سرآنکھوں پرہے ، اور جو حضرت رسول کریمؐ سے مروی ہے؛ اُسے ہم بسروچشم قبول
کئے اور اطاعت کرتے ہیں اور صحابۂ کرامؓ سے جو مختلف اقوال منقول ہیں ،ہم
نے انہی میں سے کسی قول کو اختیار کیاہے اور ہم نے کبھی ان کے خلاف نہیں
کیا اور جو تابعین سے منقول ہے تو وہ تابعی ہیں اور ہم بھی تابعی ہیں ۔ان
حقائق کااظہارمولانا مفتی حافظ سیدضیاء الدین نقشبندی شیخ الفقہ جامعہ
نظامیہ نے مسجدابوالحسنات جہاں نماحیدرآبادمیں ابوالحسنات اسلامک ریسرچ
سنٹرکے زیراہتمام توسیعی لکچرکے دوران کیا۔سلسلۂ خطاب جاری رکھتے ہوئے مفتی
صاحب نے کہا کہ’’صحیح بخاری‘‘کو’اصح الکتب بعدکتاب اللہ‘قرآن کریم کے
بعداسلامی کتب میں صحیح ترین اورمعتبرکتاب کا درجہ حاصل ہے، امام بخاری ؒ
نے صحیح بخاری میں بائیس(22) احادیث ایسی درج کی ہیں جن میں امام بخاریؒ
اورحضوراکرمؐ کے درمیان صرف تین(3) واسطے ہیں،ان
کو’ثلاثیات‘کہاجاتاہے،اوریہ بائیس ثلاثیات امام بخاری کے لئے سرمایۂ
افتخارہیں،ان میں سے بیس(20) احادیث شریفہ
کی سندوں میں امام بخاری کے
اساتذہ حنفی محدثین ہیں ،حضرت امام مکی بن ابراہیم ؒ حنفی محدث ہیں اور
امام اعظمؓ کے شاگرد خاص ہیں ؛جن سے امام بخاری نے گیارہ(11) ثلاثیات لی
ہیں اور امام ابوعاصم ضحاک بن مخلدؒ سے چھ(6) ثلاثیات اور امام محمدبن
عبداللہ انصاری ؒ سے تین (3)ثلاثیات روایت کی ہیں ۔ ان بیس ثلاثیات میں
امام بخاریؒ کے جلیل القدر اساتذۂ محدثین وہ ہیں جو امام اعظم ابوحنیفہؒ
کے خاص شاگرد وفیض یافتگان ہیں ،امام بخاریؒ کی سند میں اگر ان حنفی
محدثین کی وساطت نہ رہے تو آپ کے پاس صرف دو(2) ثلاثیات باقی رہ جاتی ہیں
۔مفتی صاحب نے کہا کہ امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں بتیس (32)حنفی محدثین
سے روایات لی ہیں ؛جو براہ راست امام اعظمؒ کے شاگرد وتلمیذ اور مسائل
فقہیہ میں آپ کے مقلد وپیرو ہیں ۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ فقہ حنفی
وہ راستہ ہے جس کو ائمۂ محدثین نے اختیار کیا، زندگی بھر ذخائر حدیث کی
حفاظت کرنے والوں نے جن تحقیقات کو اختیار کیا ہو وہ کیونکر حدیث کے خلاف
ہوسکتی ہیں ؟۔دوران خطاب مفتی صاحب نے کہا کہ امام اعظمؒ کی فقہ کومعتبر
ومستند قرار دینے والے یحیی بن معین ان ائمہ حدیث میں سے ایک ہیں جن کے
سامنے امام بخار یؒ نے اپنی کتاب تالیف کرنے کے بعد پیش کی تھی، جب انہوں
نے تصدیق کی اورسندتصویب عطا فرمائی تب امام بخاری ؒ نے اس کو بازار علم
میں لایا، جس کی صراحت حافظ ابن حجر عسقلانیؒ نے مقدمۃ فتح الباری میں کی
ہے۔ اگر امام اعظم ؒ کے پیروکاروں کو بدعتی،گمراہ یا مشرک کہا جائے تو امام
بخاری پر اعتراض وارد ہوگا کہ انہوں نے گمراہ، بدعتی یا مشرک سے صحیح
بخاری میں روایات لی ہیں ، اس طرح امام بخاری اور آپ کی کتاب کی فنی حیثیت
بھی مجروح ہوجاتی ہے ۔قبل ازیں مولانا محمدعارف اشرفی فاضل جامعہ نظامیہ
ونائب صدربرانچ ابوالحسنات اسلامک ریسرچ سنٹر،پونا نے خطاب کیا،انہوں نے
امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کی عبقری شخصیت اورآپ کی علمی جلالت پرروشنی ڈالی
اورآپ سے متعلق عام کی جانے والی غلط فہمیوں کاسنجیدہ اورمدلل جواب پیش
کیا۔علماء وخطباء،ائمہ وحفاظ کے علاوہ دیگرمعززین اورعوام کی کثیرتعدادشریک
محفل رہی۔سلام ودعاء پرمحفل کااختتام عمل میں آیا۔